Saturday, June 2, 2012

ایک خاموش گزارش

Bol ke moti chun chun kar
chup ke lambey dhaage mein
Main to pirotaa jaaungaa
Tum sunnaa chaaho to sun lo
Yaa todke chup kaa dhaagaa tum
Bikher do saare bol mere…
بول کے موتی چن چن کر
چپ کے لمبے دھاگے میں
میں تو پروتا جاؑونگا
تم سنا چاہو تو سن لو
یا توڑ کے چپ کا دھاگا تم
۔۔۔۔۔۔ بکھیر د و سارے بول مرے

زماں حبیب

Wednesday, August 6, 2008

چلو اب ہم بچھڑتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

زماں حبیب
چلو اب ہم بچھڑتے ہیں
سلگتی دھوپ میں غم کی
بھری آنکھوں کے ساون میں
کہو تم الوداع مجھکو
خدا حافظ کہوں میں بھی
چلو اب ہم بچھڑتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
سفر یہ مختصر ہوگا،یہ ہمکو بھی خبر تھی
یہ تم بھی جانتی تھیں،بس کوئی دن کا سفر ہے یہ
کسی اک موڑ پر اک دن
بچھڑ جائینگے ہم یونہی
تمہاری راہ کی ضد پر،مرے رستے کھلیں گے
یہی وہ موڑ ہے جس پر
بچھڑنا ہے ہمیں ہنس کے
الگ رستے پہ چلنا ہے
الگ منزل کی جانب اب
چلو اب ہم بچھڑتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر جانے سے پہلے آخری درخواست ہے تم سے
سفر لمبا ہے مجھکودیدو"اپنی یاد کی پونجی"
"کھنکتے بول کے سکّے۔۔۔۔۔۔۔"
کہ کل جب خامُشی در پر صدا دے
تو دھر دوں اُس کے کاسے میں
کھنکتے بول کے سکّے
!! تمہارے بول کے سکّے
کوئی بھی اٹپٹا جملہ کہ جس میں ہو
کتاب زیست کی آیات کا جادو
تم اپنی پیاری انگلی سے ہماری پیٹھ پہ لکھ دو
کہ کل جب لفظ دب جائیں،کتابوں کی عمارت میں
یہی جملہ پڑھونگا میں
!!تمہارا اٹپٹا جملہ
جگا دو لمس کے جگنو،مرے سارے بدن پر تم
وہ جگنوجو کریں روشن،تمہاری یاد کو ہر دم
کہ پھر جب بھی اندھیرے سے گزر ہوگا
یہی جگنوتوچمکیں گے
!!تمہارے لمس کے جگنو
بٹھادو پیار کی تتلی،الگ قسموں کی رنگوں کی
مری ہر شاخ پہ چُن کے
کہ کل جب زندگی بےرنگ ہوگی تو
یہی تتلی میں دیکھونگا
!!تمہارے پیار کے تتلی
بہا دو آنکھ کا دریا،مرے کاندھے پہ سررکھ کے
وہ دریا جس میں ہو اپنے،بتائے سب کے سب ساون
کہ جب کل تشنگی میری یہ جسم وجاں جلائے گی
اسی دریا سے پیاس اپنی بجھاوَں گا
!!تمہاری آنکھ کا دریہ
تم اپنے خوش نما ناخن
چبھودو میرے سینے میں
جھپٹ کر اس قدر گہرے
"کہ رہتی زندگی تک اک بھلی سے ٹیس رہ جائے"
چلو اب ہم بچھڑتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر جانے سے پہلے آخری درخواست ہے تم سے
سفر لمبا ہے مجھکودیدو"اپنی یاد کی پونجی"
کھنکتے بول کے سکّے
کوئی بھی اٹپٹا جملہ
تم اپنے لمس کے جگنو
اور اپنے پیار کی تتلی
اور اپنی آنکھ کا دریا

!! وہی اک ٹیس لافانی

Tuesday, June 17, 2008

معنی کا عزاب

گلزار
چوک سے چل کر
منڈی اور بازار سے ہو کر
لال گلی سےگزری ہے کاغز کی کشتی
بارش کےلاوارث پانی پر بیٹھی بیچاری کشتی
شہر کی آوارہ گلیوں میں
سہمی سہمی گھوم رہی ہے
پوچھ رہی ہے
ہر کشتی کا ساحل ہوتا ہے تو کیا میرا بھی
ساحل ہوگا
بھولے بھالے اک بچّے نے
بےمعنی کو معنی دے کر
ردّی کے کاغز پر کیسا ظلم کیا ہے ۔ ۔ ۔!

Saturday, June 14, 2008

لینڈ اسکیپ

گلزار

دور سنسان سے ساحل کے قریب
اک جواں پیڑ کے پاس
عمر کا درد لۓ
وقت کی مٹیالی نشانی اوڑھے
بوڑھا سا پام کا اک پیڑ
کھڑا ہے کب سے
سیکڑوں سال کی
تنہائ کے بعد
جھک کے کہتا ہے
جواں پیڑ سے
! یار
!! سرد سنّاٹا ہے
تنہائ ہے !
کچھ بات کرو ۔ ۔ ۔ ۔
سید ارمان رسول فریدی
علیگڑہ مسلم یونیورسیٹی

Monday, March 10, 2008

यह ब्लॉग टेस्ट करने के उद्देश से आरंभ किया गया है आप की प्रतिक्रिया एवं सुझाव का स्वागत है

अरमान रसूल फ़रिदी