Wednesday, August 6, 2008

چلو اب ہم بچھڑتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

زماں حبیب
چلو اب ہم بچھڑتے ہیں
سلگتی دھوپ میں غم کی
بھری آنکھوں کے ساون میں
کہو تم الوداع مجھکو
خدا حافظ کہوں میں بھی
چلو اب ہم بچھڑتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
سفر یہ مختصر ہوگا،یہ ہمکو بھی خبر تھی
یہ تم بھی جانتی تھیں،بس کوئی دن کا سفر ہے یہ
کسی اک موڑ پر اک دن
بچھڑ جائینگے ہم یونہی
تمہاری راہ کی ضد پر،مرے رستے کھلیں گے
یہی وہ موڑ ہے جس پر
بچھڑنا ہے ہمیں ہنس کے
الگ رستے پہ چلنا ہے
الگ منزل کی جانب اب
چلو اب ہم بچھڑتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر جانے سے پہلے آخری درخواست ہے تم سے
سفر لمبا ہے مجھکودیدو"اپنی یاد کی پونجی"
"کھنکتے بول کے سکّے۔۔۔۔۔۔۔"
کہ کل جب خامُشی در پر صدا دے
تو دھر دوں اُس کے کاسے میں
کھنکتے بول کے سکّے
!! تمہارے بول کے سکّے
کوئی بھی اٹپٹا جملہ کہ جس میں ہو
کتاب زیست کی آیات کا جادو
تم اپنی پیاری انگلی سے ہماری پیٹھ پہ لکھ دو
کہ کل جب لفظ دب جائیں،کتابوں کی عمارت میں
یہی جملہ پڑھونگا میں
!!تمہارا اٹپٹا جملہ
جگا دو لمس کے جگنو،مرے سارے بدن پر تم
وہ جگنوجو کریں روشن،تمہاری یاد کو ہر دم
کہ پھر جب بھی اندھیرے سے گزر ہوگا
یہی جگنوتوچمکیں گے
!!تمہارے لمس کے جگنو
بٹھادو پیار کی تتلی،الگ قسموں کی رنگوں کی
مری ہر شاخ پہ چُن کے
کہ کل جب زندگی بےرنگ ہوگی تو
یہی تتلی میں دیکھونگا
!!تمہارے پیار کے تتلی
بہا دو آنکھ کا دریا،مرے کاندھے پہ سررکھ کے
وہ دریا جس میں ہو اپنے،بتائے سب کے سب ساون
کہ جب کل تشنگی میری یہ جسم وجاں جلائے گی
اسی دریا سے پیاس اپنی بجھاوَں گا
!!تمہاری آنکھ کا دریہ
تم اپنے خوش نما ناخن
چبھودو میرے سینے میں
جھپٹ کر اس قدر گہرے
"کہ رہتی زندگی تک اک بھلی سے ٹیس رہ جائے"
چلو اب ہم بچھڑتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر جانے سے پہلے آخری درخواست ہے تم سے
سفر لمبا ہے مجھکودیدو"اپنی یاد کی پونجی"
کھنکتے بول کے سکّے
کوئی بھی اٹپٹا جملہ
تم اپنے لمس کے جگنو
اور اپنے پیار کی تتلی
اور اپنی آنکھ کا دریا

!! وہی اک ٹیس لافانی

No comments: